آپ نے اکثر لوگوں کو یہ دعا مانگتے ہوئے سنا ہو گا کہ یااللہ ہمیں توبة النصوح کی توفیق عطاء فرما۔ ہم بچپن میں پڑھتے تھے کہ ہر محاورے کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے۔ اور ہمارے ٹیچر نے ہمیں بہت سارے محاوروں کے پیچھے چھپی کہانیاں سنائی بھی تھیں۔ جیسے ”یہ منہ اور مسور کی دال" گھوڑے بیچ کر سونا۔ آم کے آم، گٹھلیوں کے دام ۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ وغیرہ وغیرہ۔
توبة النصوح کے پیچھے چھپی کہانی کے بارے میں جانتے ہیں۔ اس واقعہ کو مولانا جلال الدین رومی جن کو ڈاکٹر علامہ اقبال اپنا روحانی مرشد بھی کہتے تھے، نے اپنی مثنوی میں لکھا ہے کہ کیسے نصوح نے سچی توبہ کی اور اللہ نے اس کو کیا انعامات سے نوازا۔
مثنوی معنوی میں لکھا ہے؛
نصوح ایک عورت نما آدمی تھا، باریک آواز، بغیر داڑھی اور نازک اندام مرد.
وہ اپنی ظاہری شکل و صورت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زنانہ حمام میں عورتوں کا مساج کرتا اور میل اتارتا تھا۔ کوئی بھی اس کی حقیقت نہیں جانتا تھا سبھی اسے عورت سمجھتے تھے۔ یہ طریقہ اس کے لئے ذریعہ معاش بھی تھا اور عورتوں کے جسم سے لذت بھی لیتا تھا۔ کئی بار ضمیر کے ملامت کرنے پر اس نے اس کام سے توبہ بھی کر لی لیکن ہمیشہ توبہ توڑتا رہا.
ایک دن بادشاہ کی بیٹی حمام گئی ۔ حمام اور مساج کرنے کے بعد پتہ چلا کہ اس کا گراں بہا گوھر (موتی یا ہیرا) کھو گیا ہے۔ بادشاہ کی بیٹی نے حکم دیا کہ سب کی تلاشی لی جائے۔ سب کی تلاشی لی گئی ہیرا نہیں ملا۔
نصوح رسوائی کے ڈر سے ایک جگہ چھپ گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ شہزادی کی کنیزیں اسے ڈھونڈ رہی ہیں تو سچے دل سے خدا کو پکارا اور خدا کی بارگاہ میں دل سے توبہ کی اور وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی بھی یہ کام نہیں کروں گا، میری لاج رکھ لے مولا۔
دعا مانگ ہی رہا تھا کہ اچانک باہر سے آواز سنائی دی کہ نصوح کو چھوڑ دو، ہیرا مل گیا ہے۔ نصوح نم آنکھوں سے شہزادی سے رخصت لے کر گھر آ گیا ۔
نصوح نے قدرت کا کرشمہ دیکھ لیا تھا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کام سے توبہ کر لی۔ کئی دنوں سے حمام نہ جانے پر ایک دن شہزادی نے بلاوا بھیجا کہ حمام آ کر میرا مساج کرے لیکن نصوح نے بہانہ بنایا کہ میرے ہاتھ میں درد ہے میں مساج نہیں کر سکتا ہوں۔
نصوح نے دیکھا کہ اس شہر میں رہنا اس کے لئے مناسب نہیں ہے سبھی عورتیں اس کو چاہتی ہیں اور اس کے ہاتھ سے مساج لینا پسند کرتی ہیں۔ جتنا بھی غلط طریقے سے مال کمایا تھا سب غریبوں میں بانٹ دیا اور شہر سے نکل کر کئی میل دور ایک پہاڑی پر ڈیرہ ڈال کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہو گیا۔
ایک دن اس کی نظر ایک بھینس پر پڑی جو اس کے قریب گھاس چر رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ یہ کسی چرواہے سے بھاگ کر یہاں آ گئی ہے ، جب تک اس کا مالک نہ آ جائے تب تک میں اس کی دیکھ بھال کر لیتا ہوں۔ لہٰذا اس کی دیکھ بھال کرنے لگا۔
کچھ دن بعد ایک تجارتی قافلہ راستہ بھول کر ادھر آ گیا جو سارے پیاس کی شدت سے نڈھال تھے۔ انہوں نے نصوح سے پانی مانگا، نصوح نے سب کو بھینس کا دودھ پلایا اور سب کو سیراب کر دیا۔ قافلے والوں نے نصوح سے شہر جانے کا راستہ پوچھا، نصوح نے ان کو آسان اور نزدیکی راستہ دکھایا ۔ نصوح کے اخلاق سے متاثر ہو کر تاجروں نے جاتے ہوئے اسے بہت سارا مال بطور تحفہ دیا۔ نصوح نے ان پیسوں سے وہاں کنواں کھدوا دیا۔ آہستہ آہستہ وہاں لوگ بسنے لگے اور عمارتیں بننے لگیں۔ وہاں کے لوگ نصوح کو بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
رفته رفته نصوح کی نیکی کے چرچے بادشاه تک جا پہنچے۔ بادشاہ کی دل میں نصوح سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ اس نے نصوح کو پیغام بھیجا کہ بادشاہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں مہربانی کر کے دربار تشریف لے آئیں۔ جب نصوح کو بادشاہ کا پیغام ملا اس نے ملنے سے انکار کر دیا اور معذرت چاہی کہ مجھے بہت سارے کام ہیں میں نہیں آ سکتا۔ بادشاہ کو بہت تعجب ہوا مگر اس بے نیازی کو دیکھ کر ملنے کی طلب اور بڑھ گئی۔ بادشاہ نے کہا کہ اگر نصوح نہیں آ سکتے تو ہم خود اس کے پاس جائیں گے۔
جب بادشاہ نصوح کے علاقے میں داخل ہوا، خدا کی طرف سے ملک الموت کو حکم ہوا کہ بادشاہ کی روح قبض کر لے۔ چونکہ بادشاہ بطور عقیدت مند نصوح کو ملنے آ رہا تھا اور رعایا بھی نصوح کی خوبیوں کی گرویدہ تھی، اس لئے نصوح کو بادشاہ کے تخت پر بٹھا دیا گیا۔
نصوح نے اپنے ملک میں عدل اور انصاف کا نظام قائم کیا۔ وہی شہزادی جسے عورت کا بھیس بدل کر ہاتھ لگاتے ہوئے بھی ڈرتا تھا ،اس شہزادی نے نصوح سے شادی کر لی۔
ایک دن نصوح دربار میں بیٹھا لوگوں کی داد رسی کر رہا تھا کہ ایک شخص وارد ہوا اور کہنے لگے کہ کچھ سال پہلے میری بھینس گم ہو گئی تھی ۔ بہت ڈھونڈا مگر نہیں ملی ۔ برائے مہربانی میری مدد فرمائیں۔ نصوح نے کہا کہ تمہاری بھینس میرے پاس ہے۔ آج جو کچھ میرے پاس ہے وہ تمہاری بھینس کی وجہ سے ہے۔ نصوح نے حکم دیا کہ اس کے سارے مال اور دولت کا آدھا حصہ بھینس کے مالک کو دیا جائے۔ وہ شخص خدا کے حکم سے کہنے لگا:
اے نصوح جان لو، نہ میں انسان ہوں اور نہ ہی وہ جانور بھینس ہے۔ بلکہ ہم دو فرشتے ہیں تمہارے امتحان کے لئے آئے تھے۔ یہ سارا مال اور دولت تمہارے سچے دل سے توبہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ یہ سب کچھ تمہیں مبارک ہو ۔
وہ دونوں فرشتے نظروں سے غائب ہو گئے۔
اسی وجہ سے سچے دل سے توبہ کرنے کو (توبة نصوح) کہتے ہیں. تاریخ کی کتب میں نصوح کو بنی اسرائیل کے ایک بڑے عابد کی حیشیت سے لکھا گیا ہے۔
(کتاب: مثنوی معنوی، دفتر پنجم، انوار المجالس صفحہ ۴٣٢)
سبق: نصوح رزق کمانے کے لئے اللہ کا نا پسندیدہ کام کیا کرتا تھا۔ جب وہ کام للہ کے خوف کی وجہ سے چھوڑا تو اللہ نے رزق کے اسباب پیدا کئے اور بادشاہت تک عطا کر دی۔ حرام طریقے سے لذت حاصل کرنا چھوڑا تو اللہ نے نکاح میں شہزادی دے دی۔
اللہ تعالی سب کو توبہ کرنے، اور تا دمِ مرگ اس توبہ پر قائم رہنے کی توفیق فرمائے آمین۔
Posted Status in Faith/Religion