بصرہ میں ایک عابد وزاہد شخص اسمٰعیل رہا کرتےتھے۔ ان کی مالی حالت انتہائی شکستہ تھی مگر آپ اپنی فطری قناعت کےسبب کبھی کسی کےسامنےدست سوال دراز نہیں کرتےتھے۔ شیخ اسمٰعیل کی تین بیٹیاں تھیں جس رات چوتھی بیٹی حضرت رابعہ پیدا ہوئیں شیخ اسمٰعیل کی بےسروسامانی کا یہ عالم تھا کہ چراغ جلانےکیلئےگھر میں تیل تک نہیں تھا۔ حضرت رابعہ کی والدہ نےشوہر سےکہا کہ وہ کسی پڑوسی سےکچھ پیسےقرض لےلیں۔ شیخ اسمٰعیل نےاپنی ذات کیلئےکبھی کسی کےآگےہاتھ نہیں پھیلایا تھا مگر جب شریک حیات نےبار بار کہاتو آپ رات کی تاریکی میں گھر سےنکل کھڑےہوئےاور پڑوسی کےدروازےپر پہنچ کر دستک دی۔ پڑوسی گہری نیند سویا ہوا تھا۔ اس لئےاس نےدستک کی آواز نہ سنی۔ شیخ اسمٰعیل کچھ دیر تک دروازہ کھلنےکےانتظار میں کھڑےرہےمگر جب پڑوسی کےقدموں کی چاپ تک سنائی نہیں دی تو آپ خاموشی کےساتھ واپس لوٹ آئے۔
آپ کی اہلیہ نےشوہر کو خالی ہاتھ آتےدیکھا توپریشان لہجےمیں کہا۔ ”کیا پڑوسی نےبھی مدد کرنےسےانکار کر دیا؟“
”کہا اس نےتودروازہ تک نہیں کھولا۔“ شیخ اسمٰعیل نےافسردہ لہجےمیں فرمایا۔
”بڑی حیرت کی بات ہے۔“ حضرت رابعہ کی والدہ نےاس طرح کہا جیسےانہیں شوہر کی بات پر یقین نہ آیا ہو۔
”آپ کو حیرت کیوں ہے؟“ شیخ اسمٰعیل نےفرمایا۔ ”جو لوگ ایک دروازےکو چھوڑ کر دوسرےدروازےپر دستک دیتےہیں ان کا یہی حال ہوتا ہی۔“ یہ کہہ کر آپ اپنےکمرےمیں چلےگئے۔
شیخ اسمٰعیل بہت دیر تک بستر پر لیٹےہوئےکروٹیں بدلتےرہے۔ آپ کو پڑوسی کےاس روّئیےپر بہت دکھ تھا۔ اس کےساتھ ہی اس بات کا بھی نہایت قلق تھا کہ آپ اس کےدروازےپرکیوں گئے؟ یہ ذہنی کشمکش بہت دیر تک جاری رہی اور پھر اسی عالم میں آپ کو نیند آگئی۔
شیخ اسمٰعیل نےحضور اکرم اکو خواب میں دیکھا۔ رسالت مآب افرما رہےتھی۔ ”اسمٰعیل! اپنی بےسروسامانی کا غم نہ کر۔ تیری یہ بچی اپنےوقت کی بہت بڑی عارفہ ہو گی اور اس کی دعائوں سےمیری امت کےبہت سےافراد بخشےجائیں گی۔ تجھ پر لازم ہےکہ حاکم بصرہ عیسٰی زروان کےپاس جا اور اس سےکہہ دےکہ وہ مجھ پر ہر رات سو بار اور شب جمعہ میں چار سو مرتبہ درود بھیجتا ہےمگر گذشتہ جمعےکی رات اس نےمیری بارگاہ میں درود کا تحفہ نہیں بھیجا۔ اس لئےاسےچاہئےکہ وہ کفارےکےطور پر میرےقاصد کو چار سو دینار ادا کر دی۔“
جب شیخ اسمٰعیل کی آنکھ کھلی تو آپ سرورِ کائنات اکےدیدار کی لذت سےسرشار تھی۔ پھر صبح ہوتےہی آپ نےاپنا پورا خواب ایک کاغذ پرتحریر کیا اور حاکم بصرہ کےدربان کودےدیا۔
عیسٰی زروان اس وقت اپنےدربار میں بیٹھا ہوا تھا۔ جب شیخ اسمٰعیل کاخط دیکھا تو بےقرار ہو کر اپنی نشست پر کھڑا ہو گیا اور دربان سےمخاطب ہو کر بولا۔
”وہ معزز و محترم شخص کہاں ہی؟“
”حاکم بصرہ کےجواب کےانتظار میں محل کےدروازےپر کھڑا ہی۔“ دربان نےعرض کیا۔
عیسٰی زروان تیز قدموں کےساتھ محل کےدروازےپر پہنچا اور شیخ اسمٰعیل کےہاتھوں کو بوسہ دےکر کہنےلگا۔ ”آپ کےطفیل مجھےسرکار دو عالم انےیاد فرمایا اورمیری غلطی کی معافی کا سبب پیدا ہوا۔ اللہ آپ کو جزائےخیردی۔“یہ کہہ کر حاکم بصرہ نےخلوص و عقیدت کےساتھ شیخ اسمٰعیل کو چار سو دینار دےدیئےاور اسی خوشی میں اس نےدس ہزار دینار دوسرےفقراءمیں بھی تقسیم کئیے۔۔
کچھ عرصے بعد رابعہ بصری کے والد انتقال کرگئے۔ اس اثناء میں بصرہ کو سخت قحط نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ قحط کے دوران آپ (رابعہ بصری) اپنی بہنوں سے بچھڑگئیں۔ ایک بار رابعہ بصری ایک قافلے میں جا رہی تھیں کہ قافلے کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور ڈاکوؤں کے سرغنہ نے رابعہ بصری کو اپنی تحویل میں لے لیا اور آپ کو لوٹ کے مال کی طرح بازارمیں لونڈی بنا کر بیچ دیا۔ آپ کا آقا آپ سے انتہائی سخت محنت و مشقت کا کام لیتاتھا۔ اس کے باوجود آپ دن بھر میں کام کرتیں اور رات بھر عبادت کرتی رہتیں اور دن میں بھی زیادہ تر روزے رکھتیں۔ اتفاقاً ایک دفعہ رابعہ بصری کا آقا آدھی رات کو جاگ گیا اور کسی کی گریہ و زاری کی آوازسن کر دیکھنے چلا کہ رات کے اس پہر کون اس طرح گریہ و زاری کر رہا ہے! وہ یہ دیکھ کرحیران رہ گیاکہ رابعہ بصری اللہ کے حضورسربسجود ہیں اور نہایت عاجزی کے ساتھ کہہ رہی ہیں:
”اے اللہ! تو میری مجبوریوں سے خوب واقف ہے۔ گھر کا کام کاج مجھے تیری طرف آنے سے روکتا ہے۔ تو مجھے اپنی عبادت کیلئے پکارتا ہے مگر میں جب تک تیری بارگاہ میں حاضر ہوتی ہوں، نمازوں کا وقت گزر جاتا ہے۔ اس لئے میری معذرت قبول فرما لے اورمیرے گناہوں کو معاف کردے۔“
اپنی کنیزکا یہ کلام اور عبادت کا یہ منظر دیکھ کر رابعہ بصری کا مالک خوفِ خدا سے لرز گیا۔ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ ایسی اللہ والی کنیزسے اپنی خدمت کرانے کی بجائے بہتر یہ ہوگا کہ خود اس کی خدمت کی جائے۔ صبح ہوتے ہی وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے فیصلے سے آپ کو آگاہ کیا۔ اس نے کہا کہ آج سے آپ میری طرف سے آزاد ہیں۔ اگر آپ اسی گھر میں قیام کریں تو میری خوش نصیبی ہوگی وگرنہ آپ اپنی مرضی کی مالک ہیں، تاہم اگرآپ یہاں سے کوچ کر جانے کا فیصلہ کرتی ہیں تو میری بس ایک درخواست ہے کہ میری طرف سے کی جانے والی تمام زیادتیوں کو اس ذات کے صدقے معاف کر دیں،جس کی آپ راتوں کو جاگ جاگ کر عبادت کرتی ہیں
رابعہ بصری نے گوشہ نشینی اورترک دنیاکے شوق کے پیش نظر آزادی ملنے کے بعد صحراؤں کارخ کیا۔ وہ دن رات معبودِ حقیقی کی یاد میں محو ہوگئیں۔ خواجہ حسن بصری، رابعہ بصری کے مرشد تھے۔ غربت، نفی ذات اورعشقِ الٰہی اُن کے ساتھی تھے۔ اُن کی کل متاع حیات ایک ٹوٹا ہوا برتن، ایک پرانی دری اور ایک اینٹ تھی، جس سے وہ تکیہ کا کام بھی لیتی تھیں۔ وہ تمام رات عبادت و ریاضت میں گزار دیتی تھیں اور اس خوف سے نہیں سوتی تھیں کہ کہیں عشق الٰہی سے دور نہ ہوجائیں۔ جیسے جیسے رابعہ بصری کی شہرت بڑھتی گئی،آپ کے معتقدین کی تعدادمیں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ آپ نے اپنے وقت کے جید علماء ومحدثین اور فقہا سے مباحثوں میں حصہ لیا۔ رابعہ بصری کی بارگاہ میں بڑے بڑے علماء نیازمندی کے ساتھ حاضر ہواکرتے تھے۔ ان بزرگوں اور علماء میں سرفہرست حضرت امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جو امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ہم عصر تھے اورجنہیں ’امیرالمومنین فی الحدیث‘ کے لقب سے بھی یادکیا جاتا ہے۔
گو رابعہ بصری کو شادی کے لئے کئی پیغامات آئے،جن میں سے ایک پیغام امیرِ بصرہ کا بھی تھا لیکن آپ نے تمام پیغامات کو رد کردیا، کیونکہ آپ کے پاس سوائے اپنے پروردگار کے اورکسی چیزکے لئے وقت تھا اور نہ طلب۔ رابعہ بصری کوکثرتِ رنج و الم اورحزن و ملال نے دنیا اور اس کی دلفریبیوں سے بیگانہ کردیا تھا۔ رابعہ بصری کے مسلک کی بنیاد”عشقِ الٰہی “ پر ہے۔
حضرت رابعہ بصریہ رحمۃ اللہ علیہا معاملات اور معرفت و طریقت میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں، آپ کو تمام بزرگ از حد معتبر اور صاحبِۂ خیال سمجھتے تھے، حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اس وقت تک وعظ نہ فرماتے جب تک حضرت رابعہ بصریہؒ تشریف نہ لاتیں، اعتراض کرنے والوں کو یہ جواب فرماتے کہ ’’جو شربت ہاتھیوں کے برتنوں کا ہے وہ چیونٹیوں کے برتوں میں نہیں سما سکتا‘‘، آپ بہت ہی پردہ دار، سوختہ عشق و اشتیاق، شیفتہ قرب و اختراق مریمِ ثانی تھیں، درویش لوگ آپ کو قلندرہ مانتے ہیں۔
آپ کے چند ناصحانہ اقوال ملاحظہ فرمائیں:
(۱) پانی میں چلنا مچھلی کا کام ہے، ہوا میں اڑنا مکی سے ہوسکتا ہے، کرامت ان دونوں سے باہر ہے۔
(۲) عجیب و غریب اور فوق العادت امور دکھانا ایک قسم کا مکر ہے اور کرامات استقامت میں ہے۔
(۳) دل کو قابو میں رکھنا اور اختیار ہونے کے باوجود ناجائز خواہشات پر عمل نہ کرنا ہی اصل مردانگی ہے۔
(۴) ہمیشہ اچھے کاموں میں مشغول رہنا جن سے لوگوں کو فائدہ حاصل ہو اور ان کے دُکھ درد دور ہوں، یہ بزرگی کی نشانی ہے۔
(۵) پہلے عقل و علم سے یہ لیاقت پیدا کی جائے کہ خوبیوں اور برائیوں میں باریک بینی سے فرق معلوم کرکے صرف نیکیوں پر عمل کیا جائے۔
(۶) موسموں سے لطف اندوز ہونا چھوڑدو، موسموں کے بنانے والے کو پہچانو۔
(۷) حالانکہ کوئی عورت بھی نبی مبعوث نہیں ہوئی اور کسی عورت نے خدائی کا دعویٰ بھی نہیں کیا، مگر یہ فخر عورت کو ہی حاصل ہے کہ اس کی گود میں ہی انباء صدیقین، صلحاء اور شہداء نے پرورش پائی ہے اور یہ کوئی کم مرتبہ نہیں ہے۔
(۸) جس طرح موم اپنے آپ کو جلاکر لوگوں کو روشنی دیتا ہے، اسی طرح تم اپنے آپ کو جلاؤ اور لوگوں کو روشنی دو۔
(۹) مجھے رحمٰن کی دوستی سے ہی فرصت نہیں ملتی کہ شیطان سے دشمنی رکھوں۔
(۱۰)جب بندہ اللہ تعالیٰ کی طاعت اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے عمل کے نقائص سے مطلع فرمادیتے ہیں تاکہ اپنے ان نقائص میں مشغول ہوکر مخلوق کی طرف اس کی توجہ نہ رہ جائے ۔
ایک مرتبہ حضرت رابعہ بصری جذب کی حالت بصرہ کی گلیوں میں ایک ہاتھ میں مشعل اور دوسرے ہاتھ میں پانی لئے جا رہی تھیں۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ یہ آپ کیا کرنے جا رہی ہیں؟ تو رابعہ بصری نے جواب دیا کہ میں اس آگ سے جنت کو جلانے اور اس پانی سے دوزخ کی آگ بجھانے جا رہی ہوں، تاکہ لوگ اپنے معبودِ حقیقی کی پرستش جنت کی لالچ یا دوزخ کے خوف سے نہ کریں، بلکہ لوگوں کی عبادت کا مقصد محض اللہ کی محبت بن جائے
ایک مرتبہ رابعہ بصری سے پوچھاگیا کہ کیا آپ شیطان سے نفرت کرتی ہیں؟ رابعہ بصری نے جواب دیاکہ خدا کی محبت نے میرے دل میں اتنی جگہ ہی نہیں چھوڑی کہ اس میں کسی اور کی نفرت یا محبت سما سکے۔
یہ فلسطین ؛ حضرت رابعہ بصریہ رحمۃ اللہ علیہا کا مزار مبارک ہے
Posted Article in Islam