علامہ محمد اقبال اور پیغام وحدت امت (اول حصہ)

’’پیغام وحدت امت‘‘ خالصتاً فکر اسلامی ہے جس پہ کوئی وہم کا گذر بھی نہیں۔ تصورِ اتحادِ امت اسلامی تصور ہے جس کا مرکزی نقطہ انفرادیت کو اجتماعیت میں ضم کرنا ہے۔ حضرت اقبال نے جب یورپی قومیت کا پورے طریقے سے تجزیہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ قومیت ایک سیاسی نظام کی حیثیت سے غیر انسانی نظام ہے۔ یورپ سے انہوں نے اس کے عملی نتائج دیکھے تو انہیں یہ خدشہ ہوا کہ یہ جذبہ اسلامی ممالک کے لئے نہایت خطرناک ہے۔ جب ترکوں کے خلاف عرب ممالک نے انگریزوں کو مدد دی تو ان کو واضح ہوا کہ یہ حیلہ کارگر ہے۔ اقبال طویل مطالعہ اور مشاہدہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ وطنیت، وحدتِ ملت کے راستے کا پتھر ہے۔ سو آپ نے تصورِ قومیت (Concept of nationality) کے مفاسد، قبائح، عواقب واضح کئے اور تصور ملت واضح کیا۔ حرفِ اقبال، نثر اقبال میں رقم ہے کہ خود حضرت اقبال فرماتے ہیں:


’’میں یورپ کے پیش کردہ نیشنلزم کا مخالف ہوں۔ اس لئے کہ مجھے اس تحریک میں مادیت اور الحاد کے جراثیم نظر آتے ہیں اور یہ جراثیم میرے نزدیک دور حاضر کی انسانیت کے لئے شدید ترین خطرات کا سر چشمہ ہیں۔ اگرچہ وطن سے محبت ایک فطری امر ہے لیکن اس عارضی وابستگی کو خدا اور مذہب سے برتر قرار نہیں دیا جا سکتا‘‘۔

انگلستان میں جدید وطنیت کا تصور 17 ویں صدی کے آغاز سے ابھرا۔ امریکہ میں قوم پرستی کا تصور اٹھارویں صدی میں نمو پذیر ہوا۔ اب یہ تاریک رات کسی نہ کسی صورت میں تمام عالم کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ کہیں ذات پرستی کا سیل بیکراں انسانی قدروں کو بہا لے جا رہا ہے۔ ۔ ۔ کہیں نسل پرستی کا زہر جڑیں کاٹ رہا ہے۔ آج کے مسلمان حکمران بھی اسی سے متاثر ہو کر یہی نعرہ آلاپ رہے ہیں۔ کہیں رنگ و روپ کا طوفان سارے عالم کی بنیادیں مسمار کر رہا ہے۔ یہاں Red Indian، Black Indian کا ذکر ہی کیا۔ ۔ ۔ ہم مسلمانوں کے حالات کیا ہیں۔ ۔ ۔ ناگفتہ بہ ناگفتہ بہ قبائلیت کا جکڑ بند ہمارے انگ انگ کو جکڑے ہوئے ہے۔ طبقاتیت اور جغرافیت کے عفریت پھر سے سر اٹھا رہے ہیں۔


پیغامِ وحدتِ ملت، پیغام اتحادِ امت، تصورِ ملتِ بیضا، فکرِ ملتِ احمد مرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، شعر و نثر اقبال میں جابجا ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہے اور اس کو افکار و تصوراتِ اقبال میں مرکزی مقام حاصل ہے۔ اس تصور کا مرکزی نقطہ فرد و ملت کا ربط۔ ۔ ۔ خودی کا بے خودی ہونا۔ ۔ ۔ قطرے کا قلزم ہونا۔ ۔ ۔ کوکب کا کہکشاں شمار ہونا۔ ۔ ۔ موتی کا لڑی میں پرویا جانا ہے۔ نفی قومیتِ جدیدہ اور اثباتِ ملتِ اسلامیہ اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک سلبی اور دوسرا اثباتی ہے۔ آیئے کلام اقبال میں ان دونوں پہلووں کا جائزہ لیتے ہیں۔


1۔ نفی قومیتِ جدیدہ

حکیم الامت شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اگرچہ ابتدائی دنوں میں جغرافیائی اور وطنی قومیت کے قائل تھے بلکہ اس کے پرچارک تھے۔ ان کا کلام ’’ہندی ہیں ہم سارا ہندوستان ہمارا‘‘ اس کا ایک ثبوت ہے۔ بعد ازاں یورپ کے تعلیمی سفر میں انہوں نے احوالِ یورپ کا عمیق جائزہ لیا تو قومیت کے تمام پہلوئوں کا تجزیہ کیا۔ اس کے مفاسد، قبائح، اثراتِ بد سامنے آئے۔ بعد ازاں تصورات اسلام کا تقابلی تجزیاتی مطالعہ نے ان کی سوچ کا رخ موڑ دیا۔ نفی قومیتِ جدیدہ کا ہندوستان میں جس شد و مد کے ساتھ آپ نے رد و ابطال کیا، وہ آپ کا خاصہ ہے۔ یہی تصور، تصور پاکستان کا اساسی نقطہ قرار پایا۔ آپ کے شعر، نثر، خطوط، مضامین، ملفوظات، خطبات کا بیشتر حصہ اسی تصور کی توضیح، تشریح، تنقیخ، تعبیر کیلئے موجود ہے۔ قومیت جدیدہ کی نفی و رد و ابطال کے لئے فکر اقبال میں مطالعہ کریں تو آپ نے درج ذیل تمام گوشوں کا احاطہ کیا اور کوئی پہلو تشنہ لب نہ چھوڑا۔


1. وطنیت (Patriotism)

2. قومیت (Nationalism)

3. نسلیت (Creedism)

4. طبقاتیت (Classism)

5. لونیت (Colourism)

6. لسانیت (Languagism)

7. قبائلیت (Traiblism)


1۔ وطنیت (Patriotism)

عہد جدید کا عظیم بت، وطن پرستی ہے۔ اس کو دور حاضر میں یوں عام کیا گیا کہ اس کے ذریعے تصورِ ملت، تصورِ امت کو منہدم کر دیا جائے۔ حبِ وطن میں کوئی مضائقہ نہیں اگر دین و مذہب محلِ نظر نہ ہو۔ اقدارِ اسلامیہ ثانوی ہو کے نہ رہ جائیں۔ اس سلسلہ میں حضرت اقبال نے وہ قلمی اور عملی جہاد کیا جو کسی اور نے نہ کیا۔ جب ’’ملت از وطن است‘‘، ملت وطن سے ہے اور ’’ہمہ ملت ہندیہ‘‘، است ہم ہندی ملت ہیں کہ بازگشت سنائی دی تو آپ اس کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔ دلائل و براہین، شواہد، قرائن کا انبار لگا دیا۔ منبر پر بیٹھے والوں نے گمراہ گری کے لئے ہر ممکن کوشش کی مگر آپ نے تصورِ قومیتِ اسلامیہ کو خوب اجاگر کیا اور ہر حیلے، حملے کے تار و پور بکھیر دیئے اس حد تک مطلع صاف کر دیا کہ آج تک ان لوگوں سے جواب بن نہیں پڑا۔ فرماتے ہیں:


مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا وطن اور

تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور


ان تازہ خداوں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے


کہیں وطنیت کے اس بتِ باطل کو ضربِ اسلام سے یوں خاک کیا:


ماکہ از قید وطن بیگانہ ایم

چوں نگہ نور و چشمیم و یکیم


’’ہم مشرق و مغرب میں رہنے والے کلمہ وطن کی زنجیر سے آزاد ہیں۔ ہم ایک چہرے کی آنکھیں ہیں، ایک نور و ایک روشنی ہیں‘‘۔


یہ تصور کہاں سے ماخوذ ہے؟ اصل میں خیابان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشہ چینی ہے۔ ایسے اقبال دان تو عام پائے جاتے ہیں جو فکر اقبال کو یورپ کے افکار کے دامن میں تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ ’’روزگارِ فقیر‘‘ میں وجیہ الدین فقیر اقبال کا یہ جملہ لکھتے ہیں کہ لوگ مجھے ڈھونڈتے پھریں گے یونیورسٹی کی سیڑھیوں میں جبکہ میں سید میر حسن شمس العلما کے قدموں میں ہوں۔


نفی وطنیت کے سلسلے میں آقائے دو عالم، سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی طرف اشارہ یوں کیا۔ ’’بلال از حبش صہیب از روم سلمان از فارس‘‘ اسی اگر ہم خیر التابعین حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی طرف نگاہ دوڑائیں تو وہ یمنی ہیں۔ بخاری شریف کے اوراق پر انوار گواہ ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ طریق خطاب تھا ’’سیدنا بلال رضی اللہ عنہ‘‘، بلال رضی اللہ عنہ ہمارے سردار۔ ۔ ۔ وہ عرب جو وطنیت کے گرویدہ تھے ان کی رگوں سے اس تصور کو مٹادیا۔


2۔ قومیت (Nationalism)

تصور جغرافیت آج ایسا تصور ہے جس نے نفرت، تنفر، بیزاری، ناپسندیدگی کا طوفان برپا کیا۔ مشرقیت مغربیت میں یہ نفرت فروغ نعرہ آپکو عام ملے گا۔ اس تقسیم انسانیت نے وہ ستم ڈھائے جو ناقابل فراموش ہیں۔ آج الکفر ملته واحدة کے تصور کی اساس بھی یہی مغربیت و مشرقیت ہے۔ ہزارہا تقسیمات، رنگ و نسل، خون و نسب، قوم و وطن، امیرو غریب میں بٹے ہوئے آج اسلام دشمنی میں ایک ہیں۔ مگر ہم ایک کیوں نہیں؟ الاسلام ملۃ واحدۃ کیوں نہیں، اس پہ حضرت اقبال نے کیا ارشادات فرمائے:


قلب ما از ہند و روم و شام نیست

مرزبوم بجز اسلام نیست

مرا دل ہند، روم اور شام میں قید نہیں ہے، میرا وطن اسلام ہے۔


ہمچو سرمایہ از باراں مجوہ

بیکراں شو در جہاں پایاں مجوہ


بارش کے قطرات سے سبق اندوز ہو۔ وہ خودی، انفرادیت ترک کرکے دریا میں گم ہوتا ہے۔


از حجاز و چین و ایرانیم ما

شبنم یک صبح خندانیم کا


جغرافیائی حد بندیوں سے باہر نکل، حجاز و چین، ایران و روم سے نکل، ایک مسکراتی صبح کے شبنم کے قطرات بنو، جز بندیاں چھوڑو۔


یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی

تو اے شرمندۂ ساحل اچھل کر بیکراں ہوجا


صورت ماہی بہ بحر آباد شو

یعنی از قید مقام آزاد شو


مچھلی کی طرح سمندر آباد ہوجا اور مقامات کی تہہ کو قلیتاً ترک کردے۔


3۔ نسلیت (Creedism)

نسلوں پہ قوموں کی بنا قدیمی ہے۔ نسلوں کا تصادم ہر دور میں پایا گیا۔ فکرِ انبیاء و مرسلین عظام نے اس بت کو پاش پاش کیا۔


دنیا کی دیگر اقوام میں گورے کالے، اعلیٰ نسل، کم تر نسل کا تصور سرایت کئے ہوئے ہے۔ افسوس! آج ہم بھی اسی نہج میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ نسل پرستی کا صنم ہماری بگلوں میں بھی ہے۔ ۔ ۔ ذات پات کا نظام ہم کیا کم ہے۔ ۔ ۔ ؟ ہم میں برہمنوں کی کیا کمی ہے۔ ۔ ۔ وحدت کا تصور کیونکر ابھرے۔ ۔ ۔ ہم اپنی خود ساختہ برتریوں سے تائب ہونے کو تیار نہیں۔ کسی نہ کسی صورت میں یہ تصور ہمارے Sub-Conscious Mind میں موجود ہے۔


غبار آلودۂ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے

تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پرفشاں ہوجا


اگر نسب را جزوِ ملت کردہ

رخنہ درکارِ اخوت کردہ


عشق در جان و نسب در پیکر است

رشتۂ عشق از نسب محکم تر است


اگر بنائے ملت نسب پہ رکھیں تو تصور اخوت پارہ پارہ ہوجائے گا۔ عشق سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، راحت کون و مکاں اگر جان و جسم، نسل و نسب کے پیکر میں نہ ڈھلے توچہ مسلمانی؟ کہ یہ تعلقِ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب رکن سے محکم تر اور مضبوط تر ہے، اسی کو حضرت ملا جامی امام عاشقان نے فرمایا:


بندہ عشق شوی ترکِ نسب کن جامی

دریں جا فلاں ابن فلاں چیزے نیست


جامی عشق کا بندہ بن اور نسب کے تصورات کو ترک، کر اس مقام پہ فلاں بن فلاں کچھ بھی نہیں۔


(جاری ہے، ریپلائی ملاحضہ فرمایئے)

Posted Article in Islam
Login InOR Register