4۔ طبقاتیت (Classism)
آج ہم تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ اتحاد کی جو ضرورت آج ہے وہ شاید پہلے نہ تھی لیکن اسلام کو لخت لخت کرنے والے پہلوئوں میں ایک تصور طبقاتیت ہے اور طبقہ پسندی سے قومی تصور ابھارے جارہے ہیں، وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جارہا ہے۔ طبقاتیت (امارت و غربت) مرضِ لاعلاج کی صورت میں جسمِ وحدت کو لاحق ہے۔ ہزار دینی شوق کے لوگوں کو ملیں لیکن کم تری و برتری انکی فطرت ثانیہ ہے۔ دین تو وحدت کا نام ہے اور وہ وحدت، وحدتِ تقویٰ ہے۔ اپنے بتان نفس کی تسکین کے بعد دین داری کا تڑکا لگانے والو ہوش میں آو۔ یہ طبقاتیت ہمیں ایک ہونے نہیں دیتی۔
تمیز آقا و بندہ فساد آدمیت ہے
حذر ہے چیرہ دستاں سخت ہے فطرت کی تعزیریں
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
حضرت حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے قلب و ذہن پر فرامین نبوی کنندہ تھے۔ ۔ ۔ انما تنصرون وترزقون بضعائکم بے شک تم مدد کئے جاتے ہو اور رزق دیئے جاتے ہو اپنے کمزوروں کے صدقے۔ ۔ ۔ الفقر فخری فرما کر زبانوں کو قفل لگادیا۔ ۔ ۔ ان اکرمکم عندالله اتقکم نے تمام معیارات باطلہ، تصورات خود ساختہ کو زمین بوس کردیا۔ غربت و امارت کسی کو محترم و غیر محترم نہیں کرتے۔ غربت اور امارت دونوں ایزدی امتحانات کی صورتیں ہیں۔ ہماری اخوت، دوستی، قربت کیونکر وجود میں آئے؟ ہمارا معیارِ دوستی غربت و امارت پہ استوار ہے۔ وہ نئی نسل کو تو فرمارہے تھے۔ خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر۔
5۔ لونیت (Colourism)
گورے کالے کی تقسیم ایک ایسا ناسور جس کا علاج دنیا کے کسی فلسفے، کسی تصور، کسی نظام نے حل نہ کیا۔ اتحادِ مسلم کے راستے کا سنگ گراں بتانِ رنگ و خوں ہیں مفکرین عالم سر پکڑ کے بیٹھے ہیں اور حل ملتا نہیں۔ ۔ ۔ ہاں حل اس کا ہے وہ جو مکین گنبد خضریٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا۔ اپنے وجود مسعود کا گرویدہ کر کے۔ ۔ ۔ اپنی زلفان مشک بار کا شیدا کر کے۔ ۔ ۔ اپنی چشمان مازاغ کا اسیر کرکے۔ ۔ ۔ اپنے چہرہ والشمس والقمر کا عاشق کرکے۔ ۔ ۔ اپنے حسن تابدار کا غلام بے دام کرکے تمام حسنوں کو مانند کردیا۔ ان کو طلب رہی تو ایک
النظر علی وجه النبی.
’’ہمہ وقت چہرہ نور فزا کو تکتے رہنا‘‘۔
کآنی انظر الی بياضه.
’’ایسے جیسے میں اس کی سفیدی کو ہی دیکھے جا رہا ہوں‘‘۔
کان الشمس تجری فی وجهه.
’’جیسے آفتاب کی روشنیاں چہرہ مبارک میں چھلکیں‘‘۔
ما رايته احسنه من قبل ولا بعد.
’’میں نے آپ سا حسین پیکر، نہ پہلوں میں دیکھا نہ بعد والوں میں‘‘۔
یہ ہی تصور رنگ و نسل کے عفریت کو ابدی نیند سلانے کا باعث ہوگی۔
تمیز رنگ و بو بر ما حرام است
کہ ما پروردۂ یک نو بہاریم
رنگ و بو کا فرق مجھ پہ حرام ہے کہ میں ایک بہار (اسلام) کا پالا ہوا ہوں۔ میں وحدت کی لڑی میں ہوں۔
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
6۔ لسانیت (Languagism)
زبانوں کی تفریق اور تفاخر نے ہمارا جینا محال کردیا ہے۔ ہر زبان اہل اسلام کی ہے۔ ہاں عربی کو فضیلت حاصل ہے کہ لسان اللہ عربی، لسان رسول اللہ عربی، لسان اھل الجنۃ عربی لیکن اس کا قطعاً معنی دوسری زبان کی تحقیر، اہانت، کم تری کا تصور نہیں۔ سرکار دو جہاں، والی انس وجاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فارسی کو شرف بخشا فرمایا:
یاعلی شکم اندر در د است
قم فصلی ان فی الصلوت شفاء
عربی، اوروں کو عجمی جانتے اور بنائے فخر مانتے اس کو اگر نابود کیا تو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا۔ دنیا کا کوئی مذہب، دین، فلسفہ اتنا وسیع تر تصور پیش نہیں کرسکتا۔ حضرت اقبال پنجابی اصل ہیں۔ کلام کثرت سے فارسی میں فرمایا۔ پھر اردو، ہندی و فارسی آمیز ہیں اور پھر انگریزی میں لکھا۔ آپ کا ایک فرمان تمام تصور لسانیت کی وضاحت ہے۔ سید نذیر نیازی ’’اقبال کے حضور‘‘ میں رقم فرماتے ہیں۔
’’میں زبان کو پوجا کابت نہیں سمجھتا بلکہ ایک ذریعہ اظہار تصور کرتا ہوں‘‘۔
آج لسانیت کی بنیاد پر مختلف آوازیں تقسیم کرنے اور تصور وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہے۔
7۔ قبائلیت (Traiblism)
آج مملکت خداداد کی وحدت میں ایک سد راہ قبائلیت ہے۔ حضرت اقبال نباض ملت ہیں۔ وہ ان کے عوارض بھی جانتے ہیں اور ان کا علاج بھی جانتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
قبائل کیوں ملت کی وحدت میں گم
ہو نام افغانیوں کا بلند
ایسا کیوں نہ کہیں، مطالعہ قرآن و حدیث ان کے معمولات لازمہ کا حصہ تھے۔ وجعلنکم شعوبا وقبائل لتعارفوا. شعور و قبائل اس لئے بنائے کہ تمہاری پہچان ہوسکے۔ حضور والی مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین ان کے حرز جاں تھے۔ اسی پیغام وحدت کو انہوں نے اپنے الفاظ و تراکیب میں ڈھالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبائلی عصبیت کا رد کیسے فرمایا:
ليس منا من دعا الی عصبية
ليس منا من واثل عصبية
ليس منا من مات علی عصبية
وہ ہم میں نہیں جسے عصبیت کے لئے پکارا۔ وہ ہم میں نہیں جو عصبیت کے لئے لڑا۔ وہ ہم میں نہیں جو عصبیت پہ مرا۔
2۔ تصور ملت اسلامیہ
حضرت حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے منفی تصورات قومیت کا مکمل رد و ابطال کیا۔ وطنیت، قومیت، نسلیت، جغرافیت، لونیت، طبقاتیت، مسلکیت پر تعصب کے بت کا قلع قمع کیا۔ ۔ ۔ اس کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکا۔ ۔ ۔ مسلمانوں میں عالمی تصور کو بیدار کیا۔ خود ساختہ نفرتوں کی حد بندیوں کو گرا دیا۔ اشتراکاتِ عارضہ پر تصور اتحاد کی بنیاد نہیں رکھی۔ اشتراکِ وطن لامحالہ وطن پرستی ہے۔ ۔ ۔ اشتراکِ لسان زبان کی پوجا ہے۔ ۔ ۔ اشتراکِ ذات موجب فخر ہے۔ ۔ ۔ اشتراکِ برادری نفرتوں کی آکاس بیل ہے۔ فکر اقبال براہ راست منابع اصلی سرچشمہ قرآن و حدیث سے ماخوذ ہے بلکہ تعلیمات اسلام کی تعبیر و تشریح ہے۔ آپ کے اشعار اور نثر پاروں کا مطالعہ کیجئے، تمام فکر قرآنی کا غماز ہے اور فکر مصطفوی کا آئینہ دار ہے۔
قوم مذہب ہے مذہب جو نہیں تو کچھ بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں
آپ نے مختلف اسالیب میں اظہار فرمایا۔ قوم و مذہب کا تعلق جزو لازم کا ہوا۔ فرد و جماعت کا تعلق انفرادیت کو اجتماعیت میں ضم کرنے میں ہے۔
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
حرف اقبال صفحہ نمبر 222، حضرت اقبال فرماتے ہیں:’’جو کچھ قرآن حکیم سے میری سمجھ میں آیا وہ یہ ہے کہ اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح کا داعی نہیں بلکہ عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے جو اس کی قومی اور نسلی نقطہ نگاہ کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے۔ ‘‘
حضرت حکیم الامت کے نزدیک مقصدِ تخلیقِ انسان، نظام اجتماعیت کے قیام اور اجتماعیت کا نظام صرف اور صرف دامن اسلام سے حاصل ہوتا ہے۔
در جماعت خود شکن گرد خودی
تاز گل برگے چمن گرد خودی
جماعتِ اسلام، اجتماعیتِ صالحہ، وحدت اسلامیہ میں اپنی خودی، انفرادیت کو ضم کردو کہ پھول کی پتیاں مل کے چمن بن جائیں۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
خطبہ الہ آباد 1930ء ص نمبر 20، ہندوستان میں مسلم قومیت کے بقاء کے لئے فرماتے ہیں:’’اسلام کا ظہور بت پرستی کے خلاف ایک احتجاج کی حیثیت رکھتا ہے اور وطن پرستی، بت پرستی کی ایک صورت ہے۔ ہر چند کہ حب الوطن کو مزموم متصور نہیں کیا گیا۔ وہ جنم بھوم ہے۔ اس کی مٹی سے پیار اک فطری امر ہے لیکن جب وحدت امت کے راستے میں سد راہ ہو تو قطعاً قابل تسلیم نہیں ہے۔ ‘‘
محمد رفیق افضل، گفتار اقبال کے صفحہ 178 پہ قول اقبال لکھتے ہیں کہ ’’اسلام ایک عالم گیر سلطنت کا یقینا منتظر ہے جو نسلی امتیازات سے بالاتر ہوگی۔ جس میں شخصی اور مطلق العنان بادشاہوں، سرمایہ داروں کی گنجائش نہ ہوگی۔ دنیا کا تجربہ خود ایسی سلطنت پیدا کر دے گا۔ غیر مسلموں کی نگاہ میں شاید یہ محض ایک خواب ہو لیکن مسلمانوں کا یہ ایمان ہے۔ ‘‘
آج ہم ڈیڑھ ارب کلمہ گو ہیں۔ 55 سے زائد آزاد مسلم ریاستیں ہیں۔ ایک تہائی دنیا کی آبادی ہم مسلمان ہیں۔ عظیم ذخائر ارضی، بحری، فضائی ہمارے پاس ہیں۔ موسموں کے حسین تموج ہمارے افق پہ ہیں۔ رحمتوں کی رم جھم ہمیں حاصل ہے لیکن کوئی نہ ہمیں جانے کہ ہم کون ہیں۔ ۔ ۔ ؟ اغیار کے آلہ کار۔ ۔ ۔ بے اتفاقیوں کا شجر زقوم۔ ۔ ۔ ہر گھر میں، نفرتوں کی کاشت۔ ۔ ۔ طلب علم کی ترغیب دنیا کے تمام نظامات، فلاسفہ میں مگر ہمارے پاس نہیں۔ ۔ ۔ امت مسلمہ کا ایک بہت بڑا حصہ گمراہیوں کی نذر ہے۔ ۔ ۔ ایک دوسرے کو گرا دینا ہی ہمارا مشن زندگی ٹھہرا۔ دشمنیوں کے الاو کہاں نہیں جلتے۔ ۔ ۔ پگڑیاں کہاں نہیں اچھالی جاتیں۔ ۔ لا يظلمه ولا يسلمه کا سبق ہم نے فراموش کیا۔ ۔ ۔ وحدتوں کو پارہ پارہ کیا۔ ۔ ۔ جبکہ خواب اقبال کیا تھا؟
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر
المرسلہ
الطمش لشکری پوری کلکتہ
Posted Article in Islam