الحمدللہ! رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کی برکات تمام مسلمانوں کو نصیب فرمائے ۔ اسلام کے بنیادی پانچ ارکان ہیں ان میں سے روزہ اسلام کا تیسرا رکن ہے، شریعت اسلامیہ میں اس اہم رکن کی بہت ہی تاکید کی گئی ہے ۔ روزہ کا انکار کرنے والا کافر ہے اور اس کا تارک فاسق گنہگار ہوتاہے ۔ چنانچہ روزے کی فضیلت کے متعلق حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ؐ نے ارشاد فرما یا کہ :
جب ماہ رمضان شروع ہو تاہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوسری روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے ۔ ( مشکوٰۃ شریف)
اس ماہ مقدس کے شروع ہوتے ہی پے در پے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے اور بندوں کے اعمال بغیر کسی رکاوٹ اللہ کی بارگاہ میں پیش ہو تے ہیںاور بندہ جو بھی دعا مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے۔
ماہ رمضان کی عظمت او ر فضیلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس مہینہ میں قرآن کریم نازل کیا گیا جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ :
{ شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن } ( البقرہ :185) ترجمہ: رمضان کا مہینہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا ۔
اس مہینہ میں مسلمان ہر ایسے کام کو اختیار کرتے ہیں جو اللہ کی خوشنودی کا باعث ہو اور ہر ایسے کام سے اجتناب کرتے ہیں جو اللہ کی ناراضگی کا سبب ہو ۔
مگر کچھ ایسے محروم القسمت لوگ بھی ہوتے ہیں جو اس مبارک ماہ میں بھی گناہ سے با ز نہیں آ تے ۔
ابھی چند سالوں سے ہمارے معاشرے میں اشیاء خورد و نوش کی ذخیرہ اندوزی کی صورت میں ایک نئے گناہ نے جنم لیا ہے اور اس گناہ کو اس ماہ مبارک کے ساتھ ایسے خاص کر دیا گیا ہے جیسے اسے کوئی گناہ ہی نہیں سمجھتے ۔ جب بھی ماہ رمضان آتا ہے تو یوٹیلٹی سٹوروں اور بازاروں سے انسانوں کی غذائی چیزیں غائب کر دی جاتی ہیں اور اس کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ غریب عوام کو تکلیف میںمبتلا کر کے ان کو مہنگے داموں اشیاء فروخت کریں ۔
یا د رکھئے ! مخلوق خدا کو مہنگائی کے اس دور میں گراں فروشی کی غرض سے اشیاء خوردو نوش کی ذخیرہ اندوزی کر کے تکلیف اور قحط میں مبتلا کرنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے شریعت نے اس کی مذمت بیان کی ہے اور اس قابل نفرت فعل میں مبتلا ہونے والا شخص شریعت کی نظر میں انتہائی نا پسندیدہ ہے۔ اس بارے میں بے شمار احادیث وارد ہیں، ایک حدیث شریف یہ ہے :
ترجمہ : نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ذخیرہ اندوزی صرف گنہگار ہی کرتا ہے۔
اور دوسری روایت میں کچھ یوں ہے :
{ المحتکر ملعون } ( کنز العمال )
ترجمہ: ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے ۔
اس بات پر تو تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء میں ذخیرہ اندوزی جائز نہیں ، لیکن کھا نے پینے کے علاوہ دوسری اشیاء میں ذخیرہ اندوزی جائز ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے ۔
اور یہ بھی یاد رہے کہ ذخیرہ اندوزی صرف اسی صورت میں ناجائز ہے جب ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے عوام کو ضرر پہنچے عوام کو اس کی ضرورت ہو لیکن ذخیرہ اندوز اس کو فروخت کرنے کے لیے بازار میں نہ لائے اگر اس کی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے عوام کو کوئی ضرر نہ پہنچے اور بازار میں اس چیز کی کثرت ہو تو اس صورت میں اس چیز کی ذخیرہ اندوزی کرنا ناجائز نہ ہو گا۔
اسی طرح حضرت عمر فاروق ؓ سے مروی ہے کہ :
نبی اکرم ؐنے ارشاد فرمایا کہ تاجر کو رزق دیا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے ( مشکوٰہ )
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کہیں باہر سے شہر میں غلہ وغیرہ لاتا ہے کہ اسے موجودہ اور رائج نرخ پر فروخت کرے اور گراں فروشی کی نیت سے اس کی ذخیرہ اندوزی نہ کرے تو اسے اللہ کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے اور اس کے رزق میں برکت دی جاتی ہے ۔ لیکن اس کے بر خلاف مخلوق خدا کی پریشانیوں اور غذائی قلت سے فائدہ اٹھا کر غلہ وغیرہ کی ناجائز ذخیرہ اندوزی کرنے والا گنہگار ہے اور بھلائی سے دور رہتا ہے ۔
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے ، نبی اکرم ؐ کاارشادہے کہ جوشخص غلہ رو ک کرگراںنرخ پر مسلمانوں کو فروخت کرتا ہے اللہ اسے جذام اور افلاس میںمبتلاکر دیتاہے۔(مشکوٰۃ)
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص مخلوق خدا کو خاص طور پر مسلمانوں کو تکلیف و نقصان میں ڈالتا ہے تو اللہ اسے جسمانی اور مالی بلاؤں میںمبتلا کر دیتا ہے اور جو شخص انہیں نفع پہنچاتا ہے اللہ اس کے جسم و مال میں برکت عطا فرما تا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ کئی لوگ ایسے امراض میں مبتلا ہوتے ہیں جو لا علاج ثابت ہو تے ہیں لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں ، ہسپتالوں کے چکر کاٹتے ہیں ہر ڈاکٹر کی دوا آزما لیتے ہیں مگر کوئی چیز کار آمد نہیں ہوتی چنانچہ ایک حدیث میں ہے :
نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے چالیس دن تک گرانی کے خیال سے غلہ روکے رکھا تو گویا وہ خدا سے بیزا رہوا اور خدا اس سے بیزار ہوا ( مشکوٰۃ )
اللہ تعالیٰ سے بیزا ر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اللہ کا وہ عہد توڑ دیا جو اس نے احکام شرع کی بجا آوری اور مخلوق خدا کے ساتھ شفقت کا باندھا ہے اور خدا کے اس سے بیزار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس بدترین عمل کے ذریعہ مخلوق خدا کی پریشانی کا سامان کیا تو اللہ نے اس پر سے اپنی حفاظت اٹھا لی ۔
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ماہ رمضان میں ایسے کام اختیار کیے جائیں جن سے اللہ رب العزت کی رضا مندی حاصل ہو اور ایسے کام اختیار نہ کیے جائیں جو اللہ کی ناراضگی کا باعث بنیں ۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے رمضان میں عوام الناس کے ساتھ رحم اور ہمدردی کا معاملہ کرنا چاہیے اور ماہ رمضان میں گرانی کے اس زمانہ میں غذائی اشیاء کو سستے داموں مسلمانوں کے ہاتھ فروخت کرنا باعث ثواب بھی ہے اور حصول برکت کا ذریعہ بھی ہے ۔ مہنگائی کے اس دور میں غرباء اور مساکین کا بھی خیال رکھنا چاہیے ۔ اگر ذخیرہ اندوزی کی صورت برقرار رہی تو غریب عوام کا کیا بنے گا ؟لہذا تاجروں کو چاہیے کہ کم از کم ماہ رمضان میں دل کھول کر خور و نوش کی اشیاء سستے دامو ں فروخت کریں تاکہ اس مقدس اور مبارک مہینے میں غریب اور مالدار دونوں برابر نیکیاں سمیٹ سکیں ۔
میاں ولید احمد شرقپوری
Posted Article in Islam